تحریر : مولانا غلام رسول فیضی قم المقدس
حوزہ نیوز ایجنسی । تمام آئمہ علیھم السلام پے در پے اسلامی معاشرے کیلئے سچے ہادی قرار پائے۔ اگر انکے لیے شرائط مہیا ہوتیں تو فاسق اور فاسد حکمرانوں سے نجات کیلئے ضرور قیام کرتے اور آئمہ علیھم السلام اللہ تعالیٰ کی شائستہ ہستیاں ہیں جن کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے اور معاشرے کی رہبری اپنے ہاتھوں میں لیں تاکہ امت اور تمام لوگوں کو دنیاوی اور اخروی سعادت سے منور فرماتے۔
سدیر صیرفی کہتا ہے میں نے حضرت امام صادق(ع) سوال کیا: «اللہ کی قسم یہ روا نہیں ہے کہ آپ بیٹھیں اور قیام نہیں فرمائیں»
امام علیہ السلام نے فرمایا: «کیوں؟»
میں نے عرض کی: «کیونکہ آپکے چاہنے اور محبت کرنے والے بہت زیادہ ہیں، خدا کی قسم اگر حضرت امیرالمومنین(ع) کے دوستوں کی تعداد آپ کے چاہنے والوں کی تعداد کے مطابق ہوتی تو، قبیله تیم و عدی (قبائل خلیفه اول و دوم) امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرف آنے کی جرات نہیں کرتے»
امام علیہ السلام نے فرمایا: «میرے چاہنے والوں اور محبت کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟»
میں نے عرض کی: «ایک لاکھ افراد!»
آنحضرت نے فرمایا: «ایک لاکھ آدمی
میں نے عرض کی: «جی ہاں، بلکه دو لاکھ آدمی!»
آنحضرت علیہ السلام نے فرمایا: «دو لاکھ آدمی؟»
میں نے عرض کی: «جی ہاں، بلکه آدھی دنیا آپ کو چاہتی ہے.»
حضرت نے سکوت فرمایا، بعد میں فرمایا :« میرے همراه چلیں.»
امام علیہ السلام مجھے ایک ایسے علاقے میں لے گئے جہاں مٹی سرخ رنگ کی تھی اور ایک نوجوان چرواہا، جو اپنی بھیڑ بکریوں کو چرھانے کیلئے لایا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا؛
«اے سدیر، خدا کی قسم اگر میں ان بھیڑ بکریوں کی تعداد کے مطابق سچے شیعہ اور مخلص دوست رکھتا، تو میرے لیے روا نہیں تھا کہ ایک ظالم حکومت کے آگے سکوت اختیار کرتا اور اپنے حق کا دفاع نہیں کرتا»
اپنی سواریوں سے نیچے اترے اور نماز ادا کرنے کے بعد بکریوں کی تعداد گنی تو وہ سترہ بکریاں تھیں.
خداوند عالم ہم سب کو حقیقی ناصرین امام عج میں شمار فرمائے۔
منابع:
1- کلینی، اصول کافی، تحقیق علیاکبر غفاری، تهران، دارالکتب الاسلامیه. چاپ چهارم، 1365، ج 2، صفحہ 152